پھر وہی تنہائیوں کی تلخ سی بات گزر گئی |
زندگی سے رنج کی، اک اور برسات گزر گئی |
اک نظر کی روشنی تھی، ایک لمحہ لمس کا |
پھر خیالوں میں تری، کچھ سچّی صفات گزر گئی |
دل کی دیواروں پہ جیسے عکس کچھ ٹھہرا نہ ہو |
اور آنکھوں سے کوئی چھوٹی سی برسات گزر گئی |
میں نے خود کو جب پکارا، چپ تھی میری کائنات |
ایک آوازوں سے خالی، خامشی رات گزر گئی |
ذات کی گہرائیوں میں ڈھونڈتی پھرتی رہی |
اک نجاتِ دل طلب، کچھ بے ثمر بات گزر گئی |
اِک تماشا بن گیا تھا خواب کا ہر ایک رنگ |
اور اس تماشے میں میری ساری اوقات گزر گئی |
کتنے چہرے، کتنے رستے، کتنی بکھری حرکات |
کچھ بیاں کچھ لا بیاں سی کچھ حکایات گزر گئی |
حیدرؔ اب نہ آئینہ ہے، اور نہ وہ جذبات ہیں |
پھر بھی دل کے موڑ پر، کچھ کچھ نجات گزر گئی |
معلومات