پھر وہی تنہائیوں کی تلخ سی بات گزر گئی
زندگی سے رنج کی، اک اور برسات گزر گئی
اک نظر کی روشنی تھی، ایک لمحہ لمس کا
پھر خیالوں میں تری، کچھ سچّی صفات گزر گئی
دل کی دیواروں پہ جیسے عکس کچھ ٹھہرا نہ ہو
اور آنکھوں سے کوئی چھوٹی سی برسات گزر گئی
میں نے خود کو جب پکارا، چپ تھی میری کائنات
ایک آوازوں سے خالی، خامشی رات گزر گئی
ذات کی گہرائیوں میں ڈھونڈتی پھرتی رہی
اک نجاتِ دل طلب، کچھ بے ثمر بات گزر گئی
اِک تماشا بن گیا تھا خواب کا ہر ایک رنگ
اور اس تماشے میں میری ساری اوقات گزر گئی
کتنے چہرے، کتنے رستے، کتنی بکھری حرکات
کچھ بیاں کچھ لا بیاں سی کچھ حکایات گزر گئی
حیدرؔ اب نہ آئینہ ہے، اور نہ وہ جذبات ہیں
پھر بھی دل کے موڑ پر، کچھ کچھ نجات گزر گئی

0
4
29
نعمان صاحب - زبان کی غلطیوں سے قطع نظر آپ وزن میں بھی نہیں لکھ رہے ہیں -
اس سائٹ کے ہوتے ہوئے آپ بے وزن کلام کیوں لکھیں ؟

0
جناب میں تو وزن میں ہی لکھ رہا ہوں پتہ نہیں کون آپ وزن نظر نہیں آ رہا
زبان کی غلطیاں 🤔🤔 ذرا نشان دہی کر کے مجھے 03116486033 پے مجھے whatsapp بھیج دیں

0
جناب میں تو وزن میں ہی لکھ رہا ہوں پتہ نہیں کون آپ وزن نظر نہیں آ رہا
زبان کی غلطیاں 🤔🤔 ذرا نشان دہی کر کے مجھے 03116486033 پے مجھے whatsapp بھیج دیں

0
میں نے آپ کو اسی سائٹ سے ای میل کی ہے - وہ دیکھ لیں

0