ہے یاد تمھیں کس شان سے ہم بچپن میں عید مناتے تھے
جب عید کا چاند نظر آتا ہم ہلچل خوب مچاتے تھے
پھر رات میں نیند نہ آتی تھی نانی بھی کہانی سناتی تھی
آنکھوں میں سجائے سپنے ہم آغوش میں نیند کی جاتے تھے
دن عید کا کتنا سہانا تھا اچھا وہ وقت پرانا تھا
وہ اُبلی سِوَیّاں اور شکر ہم شوق سے کیسے کھاتے تھے
کپڑے بھی نئے جوتے بھی نئے عیدی کے ملتے نوٹ نئے
پھر جیب میں نقدی ڈالے ہم کس ناز سے یوں اتراتے تھے
گاؤں کی دُکان تھی چھوٹی سی چیزیں تھیں اس میں چَوَ نّی کی
ہم لاتے خرید کہ سب خوشیاں وہ کھلونے کتنے بھاتے تھے
رنگین پہن کر عینک ہم پستول سے کرتے پینک ہم
لٹّو کا گھُمانا یاد کرو ہم لطف سہانا پاتے تھے
جو پینگ درخت پہ پڑتی تھی باری مشکل سے ملتی تھی
پھر لے کر لمبے جھولے ہم یوں گیت خوشی کے گاتے تھے
اک آن میں گزرے دن پیارے روکے نہ رُکے بہتے دھارے
اب ہم بھی ہوئے بچوں والے اس دن کے سپنے سجاتے تھے
بچوں کی خوشی اب اپنی خوشی زیرکؔ تو رہے اس میں ہی سُکھی
اے کاش نبھائیں بچے سب جو اپنے رشتے ناتے تھے

0
45