نجانے کیا ہوا اک دن
مری پلکوں پہ آنسو تھے
لبوں پر مسکراہٹ تھی
سمجھ وہ کچھ نہیں پایا
وہ کچھ بھی کہہ نہیں پایا
مگر وہ سہہ نہیں پایا
انا کا وہ پجاری تھا
گراتا تھا وہ قدموں میں
گرا کر پھر اٹھاتا تھا
گلے سے پھر لگاتا ہے
اکیلا چھوڑ جاتا تھا
مجھے وہ توڑ جاتا تھا
گرانے کا اٹھانے کا
ہنسانے کا رلانے کا
یہی تو شوق تھا اس کا
میں ترسا تھا محبت کا
مداری کی طرح مجھ کو
اشاروں پر نچاتا تھا
بھروسہ تھا اسے مجھ پر
کہ اس کا پیار پانے کو
میں ہر قیمت چکاؤں گا
نجانے کیا ہوا اس دن
کہ اس نے پھر مجھے توڑا
مگر اس مرتبہ میں کچھ
نئے انداز سے ٹوٹا
جہاں جڑنے کی خواہش تھی
وہاں سے ہی فقط ٹوٹا
جڑوں تو اب جڑوں کیسے

0
36