اے شہکارِ فطرت اسیرِ زمانی
عجب ہے جہانوں میں تیری کہانی
نہیں دور حق سے نہ وہ دور تجھ سے
پرکھ ہے سدا پیارے یہ زندگانی
وہی ابتدا ہے وہی انتہا ہے
اٹل حکم اس کا رکھے کامرانی
جو جلوہ نما ہے نہاں بھی وہ ہی ہے
وہ خالق ہے یکتا کرے پاسبانی
جو حق ہے نظارہ وہ حق ہی نظر ہے
ہے ناظر جو قادر وہ منظر ہے جانی
حسیں دِیکھتا ہے حسن کو وہ دیکھے
اسی کا ہے منظر وہ ہی ترجمانی
ہے حق سننے والا وہی بولتا ہے
ہے حق کی کہانی اسی کی زبانی
ہے اندر جو رہتا ہے باہر وہ ہر جا
عیاں اس کے جلوے نہیں لن ترانی
فقیری ہے دیتا امیری ہے دیتا
وہ دے قیصری بھی وہ دے شادمانی
وزیری اسی سے اسیری اسی سے
کرے پادشاہی کرے حکمرانی
اے قیدی مکاں کے تو آیا کہاں سے
یہ حرکت زمانی تو ہے لامکانی
جو محمود مٹی ملی خاک میں جب
اے خلقِ زمانی ملی جاودانی

16