| دل میں کوئی کسک ہے، کس کس کو بتاؤں |
| ذرا ذرا سی چہک ہے، کس کس کو بتاؤں |
| ہو جلوت تو نہیں رہتی شکوہ شکایتیں بھی |
| پر خلوت میں سسک ہے، کس کس کو بتاؤں |
| پوچھ رہیں لوگ خوشبو کی وجہ مجھ سے |
| لیکن لمس کی مہک ہے، کس کس کو بتاؤں |
| رہتے ہیں رنگ برنگ کے پھول ہزار چمن میں |
| ہر ہر گل قابل رشک ہے، کس کس کو بتاؤں |
| پھنس چکا ہوں طوفاں کے گرداب میں |
| ایک حقیر سی حرک ہے، کس کس کو بتاؤں |
| رونما ہوتے ہیں حادثات تسلسل سے ناصر |
| ہر روز کہیں جھلک ہے، کس کس کو بتاؤں |
معلومات