الھی مجھے دردِ ہجراں عطا کر
الھی مجھے نعمتِ وصل بھی دے
جَلا دے نشیمن کو میرے تو یا رب
تو وحدت کی بجلی مجھی پر گرا دے
میں سرمست ہو جاؤں بادہ کشی سے
مرے رب تو آنکھوں سے "اُن کی" پلا دے
انا الحق کی دیتا پھروں میں اذانیں
مجھی میں تو اپنا بسیرا بنا لے
الھی تو کیوں میرے اندر نہاں ہے
نکل آ تو پردے سے جلوہ دکھا دے
لیے داغِ دل اور جگر سوختہ کو
میں آہوں کو بھرتے پھروں دو جہاں میں
تو کر مجھ کو بیخود، *بیدم* بنا دے
رہوں محوِ حیرت تو *حیرت* بنا دے
تِری دید پر ہی میں رقصاں رہوں گا
دوانہ بنا دے تجلّی دکھا دے
کہ مٹ جائے دیکھو دوئی کا یہ جھگڑا
تو پردے کو میرے مجھی سے اٹھا دے
جَلا کر کے رکھ دے جو تیرے سوا کو
وہ آتش محبت کی دل میں لگا دے
جواں مردی تو اس *اثر* کو عطا کر
مِٹا پائے یہ نقشِ ظاہر کو اپنے

0
62