وہ اک صلیب تھا لگتا تھا جھولنا مجھ کو
بہت ہی مہنگا پڑا ہے قبولنا مجھ کو
اب اس کا لہجہ بھی اک ناگ بن کے ڈستا ہے
وہ بات کرتا ہے جیسے کہ ہُولنا مجھ کو
گھرا ہوا ہوں یہاں پر انا پرستوں میں
ہر ایک روز ہے سولی پہ جھولنا مجھ کو
بہت رلایا ہے ماضی کی تلخ یادوں نے
ہر ایک تلخ تجربہ ہے بھولنا مجھ کو
میری رگوں میں وہ بس زہر بھر گیا شاہدؔ
اب اس سے خون بہا ہے وصولنا مجھ کو

0
30