وہ اک صلیب تھا لگتا تھا جھولنا مجھ کو |
بہت ہی مہنگا پڑا ہے قبولنا مجھ کو |
اب اس کا لہجہ بھی اک ناگ بن کے ڈستا ہے |
وہ بات کرتا ہے جیسے کہ ہُولنا مجھ کو |
گھرا ہوا ہوں یہاں پر انا پرستوں میں |
ہر ایک روز ہے سولی پہ جھولنا مجھ کو |
بہت رلایا ہے ماضی کی تلخ یادوں نے |
ہر ایک تلخ تجربہ ہے بھولنا مجھ کو |
میری رگوں میں وہ بس زہر بھر گیا شاہدؔ |
اب اس سے خون بہا ہے وصولنا مجھ کو |
معلومات