آبِ رواں پسند ہے،یادِ گُزِشْتگاں پسند
مجھ کو سمٹتے بادباں،لوٹتی کشتیاں پسند
شِیرِیں بَیاں ہو کوئی لاکھ،ہم کو کسی سے کیا غرض
ہم کو ترے بیاں قبول،ہم کو تری زباں پسند
ہم کو ہے عاجزی کی چاہ،اُن کو غرور کی طلب
ہم کو زمیں سے پیار ہے،اُن کو ہے آسماں پسند
میں بھی الگ مزاج ہوں،اے مرے مختلف مزاج
کون ہے مجھ کو آئے جو،تیرے سِوا یہاں پسند
ہے یہی آرزو کہ میں،قدموں میں رکھ دوں سب ترے
جو کچھ کائنات میں،تُو نے کِیا جہاں پسند
تیری عجیب ہے نظر،تیرے نَظَریے ہیں عجیب
تجھ کو دھنَک میں بھی حیاتؔ،رنگ ہے آٹھواں پسند

64