کسی بھی شہر وفا سے صدا نہیں آتی
گل و چمن سے ہمیں اب صبا نہیں آتی
دیار درد میں آمد نہیں مسیحا کی
جو بڑھ کے ہجر سے پھر ابتلا نہیں آتی
حیات نام ہے دنیا میں اس حقیقت کا
گئے دنوں کی جو آواز پا نہیں آتی
دھنک کے رنگ بڑے مہرباں فلک پر ہیں
مگر برسنے کو کالی گھٹا نہیں اتی
رواں دواں سے ہیں خوشبو کے قافلے لیکن
کھلے دریچوں سے پھر بھی ہوا نہیں آتی
محبتوں کا دلوں پر نہ اب اثر ہو گا
انہیں تو یاد بھی بے ساختہ نہیں آتی
اسیر شوق ہے شاہد فقط ترا شاعر
اسے تو بات بھی خوش نوا نہیں آتی

0
71