مرنے والے کی عیادت کی ہے |
آپ نے یوں ہی مشقّت کی ہے |
دل محلّے میں جو ہے شور بپا |
حسرتِ وصل نے ہجرت کی ہے |
شہر میں کون تجھے جانتا تھا |
ہم نے ہی تو تری شہرت کی ہے |
کہیں پائل ہے، کہیں ہے زنجیر |
بات ساری یہاں قسمت کی ہے |
خوب مصروفِ فراغت ہیں ہم |
کیا غضب جمع ذلالت کی ہے |
یار کے سامنے اُف تک نہیں کی |
ہم نے دشمن کی بھی عزّت کی ہے |
آسمانوں میں جو تنہاؔ ہے خدا |
اختیار اس نے بھی خلوت کی ہے |
معلومات