مرنے والے کی عیادت کی ہے
آپ نے یوں ہی مشقّت کی ہے
دل محلّے میں جو ہے شور بپا
حسرتِ وصل نے ہجرت کی ہے
شہر میں کون تجھے جانتا تھا
ہم نے ہی تو تری شہرت کی ہے
کہیں پائل ہے، کہیں ہے زنجیر
بات ساری یہاں قسمت کی ہے
خوب مصروفِ فراغت ہیں ہم
کیا غضب جمع ذلالت کی ہے
یار کے سامنے اُف تک نہیں کی
ہم نے دشمن کی بھی عزّت کی ہے
آسمانوں میں جو تنہاؔ ہے خدا
اختیار اس نے بھی خلوت کی ہے

0
93