ذکر کل محفل میں چل نکلا مرے دلدار کا
مل گیا موقع مجھے بھی پیار کے اظہار کا
حسن کا نقشہ جو کھینچا لکھ دئے سارے حروف
جن سے بن جائے گا مجموعہ مرے اشعار کا
اپنی آنکھیں دیکھ کر شرما گئی چشمِ غزال
حسن جب اس کو نظر آیا ہے چشمِ یار کا
نور سے اس کے ہوا روشن جو دن کو آفتاب
دیکھ کر زلفیں ، کیا شب نے ارادہ ہار کا
آسماں پر کہکشاؤں نے بنایا ہے جسے
ہر ستارہ اک نمونہ ہے اسی چمکار کا
سر سے پاؤں تک مرے ظاہر ہوئے اس کے نقوش
جیسے فطرت ہو گئی مظہر مری سرکار کا
ابتدا سے انتہا تک نقص پا سکتا نہیں
گرچہ دوڑائے نظر ، ہے تجربہ سو بار کا
دیکھ کر ، بھی دیکھ کب پائے ، نہیں عقل و شعور
دل ہے قائل ، حوصلہ پھر کیوں نہیں اقرار کا
ایک جلوے سے گرفتارِ محبّت ہو گئے
ہم کہاں پڑھ پائے دفتر اس کے سب اسرار کا
جس طرف دیکھیں ہمیں طارق نظر آتا ہے وہ
ہم بھی اس کے ہو گئے، جو ہو گیا ہے یار کا

0
127