مولا مھدی ادرکنی |
مولا مھدی ادرکنی |
ہر طرف بڑھنے لگے درد و الم یا مولا |
ہم غلاموں پہ ہوئے ظلم و ستم یا مولا |
آپ کے دم سے ہے ہم سب کا بھرم یا مولا |
آپ کے در سے ہے امید کرم یا مولا |
کیجئے غم کی دوا اے خلفِ مُرتضوی |
ہم گنہگاروں کا ہے کون سہارا مولا |
ہم غریبوں کے لیے ہے یہی چارا مولا |
جب کبھی غم میں پھنسے تم کو پکارا مولا |
آپ ہیں اپنے لیے زیست کا یارا مولا |
آپ ہیں اپنا وسیلا و وظیفہ ابدی |
کیجئے ہم پہ کرم ایک نظر ہم پہ کریں |
ہم بھی مشتاق ہیں دیدار کو یہ بھی سوچیں |
ہم غلام آپ کے ہیں آپ کا دم کیوں نہ بھریں |
آپ کے قدموں پہ رخسار کیا آنکھوں کو ملیں |
بس یہی وردِ زباں ہے یہی گفتار مری |
ہو اماں اس کو جہاں بھی کوئی انسان رہے |
مضطرب چرخ میں کوئی بھی نہ حیوان رہے |
سب رہیں امن سے جس جس میں جہاں جان رہے |
نہ کسی نفس پہ ہاوی کوئی شیطان رہے |
ہے دعا چرخ میں قائم ہو نظامِ احدی |
کُرّہِ ارض پے تںگ دست نہ ہو کوئی بشر |
جبرِ مطلق سے نکل آئے یہ انساں اٹھ کر |
کر سکے کوئی نہ پھر ظلم بنی آدم پر |
ہر طرف عدل ہو اور آپ کا سایہ سر پر |
رحم بر حالَتِ انسان جلالِ احدی |
نہ کسی نہر کنارے کوئی پیاسا ہو امام |
نہ کہیں تیر و تبر سے کوئی زخمی ہو غلام |
نہ کوئی نیزا کرے سینہِ اکبر میں قیام |
نہ ہو اصغر کا گلو پیکرِ حرمل کا مقام |
آئیے کربَلا دیتی ہے صدا ابن علی |
لب پہ حیدر یہ ترے ورد سدا جاری ہو |
یا امامِ دو جہاں اب تو خبر داری ہو |
اپنے مجرم پہ کریمی کی نظر داری ہو |
میری قسمت میں ادا حقِ طرف داری ہو |
دیجے نسلوں میں غلامی کی سند یا مھدی |
معلومات