شاعر: پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالمظہری |
جلتے ہوئے پروانوں پہ حیراں نہ ہوا کر |
یوں میری محبت سے پریشاں نہ ہوا کر |
قربان پتنگوں کی طرح ہونے دے ہم کو |
یاشمع کی لَو بن کے فروزاں نہ ہوا کر |
دل ہی جو نہیں بس میں تو کیا آنکھ کو بولوں |
یوں محوِ طوافِ رخِ جاناں نہ ہوا کر |
کرنے دے پتنگوں کو طوافِ رخِ شمع |
گستاخ نگاہی پہ یوں نالاں نہ ہوا کر |
تجھ کو نہ سلیمان صفت کوئی ملے گا |
بلقیسِ سبا اے شہِ خوباں نہ ہوا کر |
اے کاکلِ پیچاں کسی تتلی کی طرح تو |
ہر دم یوں رخِ یار پہ رقصاں نہ ہوا کر |
مجھ سے جو چرا لی ہے نظر ملنے سے پہلے |
اس درجہ بھی محتاط مری جاں نہ ہوا کر |
رعنائی ہے رونق ہے فقط عشق کے دم سے |
یوں ہم پہ خفا شہرِ نگاراں نہ ہوا کر |
مہمان گھڑی بھر کے ہیں جاتے ہیں کوئی دم |
بیزار یوں ہم سے اے غزالاں نہ ہوا کر |
اتنا بھی نہ بن سادہ کہ سمجھے نہ سخن کو |
دشمن تو نہ بن چاہے قدرداں نہ ہوا کر |
یا دشت نوردی میں نہ ہو آبلہ پائی |
یا راہ میں اے خارِ مغیلاں نہ ہوا کر |
یا پھول کی پتی پہ ٹھہر اوس کی صورت |
یا محوِ فغاں دیدہ ءِ گریاں نہ ہوا کر |
ہر ایک ستم تیرا کرم لگتا ہے جا ناں |
تو جور و جفا کر کے پشیماں نہ ہوا کر |
انساں ہیں خطا ہم سے کوئی ہو گئی ہو گی |
یوں برہم و ناراض و ستم راں نہ ہوا کر |
افسانہ محبت کا نہ کھل جائے جہاں پر |
یوں مجلسِ جاناں میں غزل خواں نہ ہوا کر |
یہ سادہ دلی تجھ کو دلِ سادہ نہ ڈس لے |
ہر شخص پہ ایسے تو مہر باں نہ ہوا کر |
کر اپنی ضیا سے تو جہانوں کو منور |
بس نام کا ہی مظہرِؔ تاباں نہ ہوا کر |
شاعر: پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالمظہری |
معلومات