بے کسی کا کبھی اظہار نہ ہونے پائے
حالِ مجبوری میں اوتار نہ ہونے پائے
جاں سے بڑھکر بھی وفاداری نبھاتے جائیں
"یار کو رغبتِ اغیار نہ ہونے پائے"
یوم و شب ایک ہی دُھن رکھنے سے منزل ملے گی
فکر جو پالی ہے بیکار نہ ہونے پائے
ساری ہی زحمتیں سہنا پڑے گی ہم کو یہاں
خواب جو دیکھا ہے مسمار نہ ہونے پائے
سازشیں ایسی بچھائی گئیں ناصؔر رہ میں
نوجواں نسل یہ بیدار نہ ہونے پائے

0
56