تمام عمر نبھاتے قرار گزری ہے |
اگرچہ سر پہ قیامت ہزار گزری ہے |
نہ سرو قد ہے نہ گیسو دراز ہیں اس کے |
بنا کے دل میں مگر رہ گزار گزری ہے |
حسیں وہ صورتِ گلزار بھی نہیں لیکن |
چمن میں عرصہ ہوا کب بہار گزری ہے |
حسین عارض و رخسار سے نہ حسن اس کا |
شباب اپنا وہ کب سے گزار گزری ہے |
جھلک دکھائے تو سب نعمتوں سے بڑھ کے بہار |
خزاں ہی سامنے سے بار بار گزری ہے |
میں سنگ دل اسے کہتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں |
بہار اب کے بھی تو اشکبار گزری ہے |
غرض ہے موسموں سے اب نہ سائباں کی تلاش |
ضمیر سے مرے چیخ و پکار گزری ہے |
تُو میرا درد سمجھ داد ہی نہ دے کہہ کر |
نظر سے میری غزل شاہکار گزری ہے |
ہیں طارق آج بھی انساں کہیں انہیں ڈھو نڈو |
صدائے امن سماعت سے یار گزری ہے |
معلومات