شہر میں تازگی سی لگتی ہے
یہ فضا اجنبی سی لگتی ہے
اتنے مانوس ہو گئے ہیں ہم
آشنا خامُشی سی لگتی ہے
بات ماضی کی کیوں کریں سارے
حال میں کیا کمی سی لگتی ہے
کل کو ہو گی جو روشنی ہو گی
آج کیوں تیرگی سی لگتی ہے
اب محبّت بھی تو کرے کوئی
زندگی دل لگی سی لگتی ہے
پیرہن غم کا اوڑھ کر آئی
ہر خوشی ہی ڈری سی لگتی ہے
کوئی پوچھے تو اس کو بتلائیں
موت کیوں زندگی سی لگتی ہے
سوز میں ڈوبتی ہوئی آواز
دل کی افسردگی سی لگتی ہے
طارق امّید کی کرن تم ہو
آس تم سے بندھی سی لگتی ہے

0
76