طاق راتوں میں بھی ہم تیرے ہی مشتاق رہے |
یعنی ہم خاک نشیں فخرِ خدا پاک رہے |
رنج و غم کیوں نہ ہوں رخصت مرے دل سے اب بھی |
دل مرا محوِ غمِ صاحبِ لولاک رہے |
ان کی چوکھٹ پہ جو اک بار پھلائے دامن |
تا عمر اس کو نہ پھر حاجتِ املاک رہے |
اَنَّھُم اِذْ ظَّلَمو کا یہ کرشمہ دیکھو |
ان کا عاصی رو زِ محشر بھی تو بے باک رہے |
عشقِ احمد سے جو بھی کر لے منور سینہ |
قبر میں اس کی شبِ حشر بھی اشراق رہے |
یہ تمنا ہے کہ مل جائے دیارِ احمد |
مسکنِ زیست مدینے کی ہوا پاک رہے |
نعت لکھنے کا ادب یہ ہے کہ وقتِ تحریر |
روح مسرور ہو اور آنکھ یہ نمناک رہے |
مٹ گئے مٹتے رہے تاج وروں کے یہ نقوش |
مصحفِ دنیا میں بس تیرے ہی اوراق رہے |
تجھ سے ناطہ تھا جسے اس سے ہی ناطہ رکھا |
تیرے دیوانے تعلق میں بھی دو ٹوک رہے |
بس پسند آئی ترے عرق کی خوشبو ہم کو |
حسِ شامہ میں بھی کچھ بڑھ کے ہی با ذوق رہے |
ہم سجایا کریں یوں خلد میں بھی محفلِ نعت |
نعت گوئی کا خدا اتنا ہمیں شوق رہے |
ہے غضب کیسا یہ تیرا کہ جو ہو اس کا شکار |
تا عمر آپ کا وہ واصفِ اخلاق رہے |
جو بھی دل عشقِ نبی میں ہو فنا اے ماہی |
تا ابد رحمتِ باری سے وہ دل باق رہے |
معلومات