دلِ رنجیدہ کو جام اور نشہ دیتا ہے
میکدے جائیں تو ساقی بھی پلا دیتا ہے
آتشِ عشق بھڑکتی ہے جو دیدار کے ساتھ
ہجر بھی عشق کی حدّت کو ہوا دیتا ہے
تلخ ایّامِ گذشتہ کا نہیں کوئی گِلہ
اب تو ہر روز کوئی دُکھ وہ نیا دیتا ہے
محوِ اخبارِ سیاست ہیں جو کہہ اُٹھے ہیں
کبر آ جائے تو رشتوں کو بھلا دیتا ہے
اک نئی شان سے منزل کو روانہ وہ ہیں
رہنما جن کا بھی خطرے کا پتہ دیتا ہے
چار سُو پھیلی ہیں جو خوف کی ٹھنڈی لہریں
اعتماد اپنوں پہ ڈھارس تو بندھا دیتا ہے
وہ جو ملنے سے دیا کرتا تھا لطف اور ثواب
اب وہی شوق سے ملنے کی سزا دیتا ہے
ہم نے اک شخص سے الفت کا طریقہ سیکھا
روٹھ جانے سے بھی پہلے وہ منا دیتا ہے
مسکراہٹ کو سخی ہو کے اگر دان کرو
ایسا صدقہ تو کوئی ہنس کے بھی لا دیتا ہے
طارق اب بزم میں رونق کی توقع نہ کرو
اب وہ گھر بیٹھ کے سب کام کرا دیتا ہے

0
73