ہو آمد نئے سال کی کچھ سہانی
ہو ساگر کے ساحل پہ محفل سجانی
کہ گونجے پٹاخے، ہو جشن چراغاں
چلو مل کے اپنائیں گے رت پرانی
نہ ماتھے پہ کوئی شکن ہو نہ الجھن
بھلا کے گلے رسم بھی ہے منانی
کریں شمع روشن لہو کو جلا کر
زمانہ یہ دہرائے گا پھر کہانی
تقاضہ یہی ہے رہیں ہوش میں ہم
خدارا اجڑنے نہ پائے جوانی
شگفتہ جبیں اور وجہ حسیں ہو
تبسم ہے زندہ دلی کی نشانی
ڈگر پرخطر آئے گر رہ میں ناصؔر
نبھانا ہے پیغام الفت کو جانی

0
27