| رسوائی مقدر نہ بنی ہوتی ہماری |
| یوں رنج و الم سے بھی نہ ہوتی زبوں حالی |
| چھڑ جائے فسانہ جو کبھی حسب روایت |
| پھر چشم کو تر اشک سے کر دے یہ حکایت |
| بھرپور زمانہ رہی تاریخ سنہری |
| عالم پہ بڑی دھاک بھی کیسی تھی طاری |
| ہر سمت ہی انصاف تلے امن جو رہتا |
| مظلوم کی فریاد کو بھی وزن جو رہتا |
| اسباب کئی سارے جسے یاد میں رکھنا |
| احساس کو باطن میں بھی خوب جگانا |
| کیا حال سنائیں بھی یہاں کون ہے ناصر |
| گھٹ گھٹ کے بھی جینے میں مزا کچھ ہے ستمگر |
معلومات