مٹی سے میں بنایا گیا پہلی بار تھا
کچھ نور سے بنے ہوئے ، اک ابنِ نار تھا
تھا وہ عبادتوں میں گر اتنا ہی معتبر
اس کو پھر ایک سجدے میں کیوں اتنا عار تھا
منزل تو دور تھی ابھی ، چلنا ہوا کٹھن
میں آبلہ پا مبتدئِ رہگزار تھا
واقف نہیں ہوا ہوں گلوں سے جو ، اب تلک
جس راستے چلا ہوں ، وہی خارزار تھا
باندھا تھا میں نے رختِ سفر سوچ کر یہی
شاید اسے بھی میرا کہیں انتظار تھا
دل پا گیا سکوں مرا اتنا ہی جان کر
اس کا بھی دل مرے لئے ہی بے قرار تھا
معلوم تو نہ تھا کہ فنا میں ہی ہے بقا
جاں اس لئے لُٹا دی ، مجھے اس سے پیار تھا
طارق کہاں کہاں گئے اس کی تلاش میں
شہ رگ سے بھی قریب اگرچہ وہ یار تھا

43