مٹی سے میں بنایا گیا پہلی بار تھا |
کچھ نور سے بنے ہوئے ، اک ابنِ نار تھا |
تھا وہ عبادتوں میں گر اتنا ہی معتبر |
اس کو پھر ایک سجدے میں کیوں اتنا عار تھا |
منزل تو دور تھی ابھی ، چلنا ہوا کٹھن |
میں آبلہ پا مبتدئِ رہگزار تھا |
واقف نہیں ہوا ہوں گلوں سے جو ، اب تلک |
جس راستے چلا ہوں ، وہی خارزار تھا |
باندھا تھا میں نے رختِ سفر سوچ کر یہی |
شاید اسے بھی میرا کہیں انتظار تھا |
دل پا گیا سکوں مرا اتنا ہی جان کر |
اس کا بھی دل مرے لئے ہی بے قرار تھا |
معلوم تو نہ تھا کہ فنا میں ہی ہے بقا |
جاں اس لئے لُٹا دی ، مجھے اس سے پیار تھا |
طارق کہاں کہاں گئے اس کی تلاش میں |
شہ رگ سے بھی قریب اگرچہ وہ یار تھا |
معلومات