| یہاں پارسائی اصول ہے یہ مزاجِ عشقِ رسول ہے |
| جو بھی آیا، آقا کے در تلک وہ نصیب والوں میں پھول ہے |
| یہاں دل کی چلتی صداقتیں نہ عداوتیں نہ کدورتیں |
| اسے عام چاہ بھی مت سمجھ، یہ نہ لَوح ہے نہ فصول ہے |
| یہاں سر سجود میں ہر نفس یہی بندگی تو قبول ہے |
| نہ زبانی شور غرورِ جاں یہاں خامشی کا اصول ہے |
| یہاں ذات مٹتی ہے نور میں یہ سفر انا کا زوال ہے |
| یہ جو آنکھ نم ہے یہ مانگ ہے یہ جو دل دھڑک ہے حصول ہے |
| یہ فقیر نعت کے درمیاں ہے یہ قرب جاناں کی منزلیں |
| جو لکھا گیا ترے خون سے یہی عشقِ ارشدؔ قبول ہے |
| مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات