تشہیرِ تعلق نے دیا کچھ بھی نہیں ہے
اک درد سا ہے اور ملا کچھ بھی نہیں ہے
اس سوچ میں رہتا تھا تلاطم جو ہمیشہ
وہ سوچ بیاباں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
ہر چیز بناوٹ تھی تعلق میں وہ تیرے
وہ وقت کی باتیں تھیں وفا کچھ بھی نہیں ہے
چلتا رہا ہوں اک ترے جو خواب کے پیچھے
وہ خواب ہی تھا اور صلہ کچھ بھی نہیں ہے
اکسیر مری زیست کا میں ڈھونڈتا کیوں تھا
معلوم تھا یہ مجھ کو جزا کچھ بھی نہیں ہے
سب کچھ لٹا چکا ہوں ترے واسطے یوں اب
بس مجھ میں ترے بعد رہا کچھ بھی نہیں ہے
تو سانس بھی لیتا ہے دھڑکتا ہے ترا دل
یہ تجھکو ملی ہے جو سزا کچھ بھی نہیں ہے
اک عمر گزاری ہے تری یاد میں رہ کر
کیوں میری وفاؤں سے بنا کچھ بھی نہیں ہے
یہ کاسہِِِ الفت تو ہے خالی سا ابھی بھی
چاہت نے ہمایوں کی دیا کچھ بھی نہیں ہے
ہمایوں

0
20