عجب اُلٹا سفر ہے تیرے گھر کا
کہ منزل ہے کہیں رستہ کدھر کا
کڑی افتاد دیکھی دل لگی میں
کہ دل کے ساتھ ہی سودا جگر کا
کوئی تحفہ کروں ارسال ان کو
عنایت کر دیں گر سائز کمر کا
مرا خط پڑھ لیا رستے میں جس نے
بُرا ہو ہائے ایسے نامہ بر کا
سنا ہے رو رہے ہیں یاد کر کے
یقیں آتا نہیں ایسی خبر کا
جہاں نانِ جویں پہ ہاتھا پائی
وہیں پر تذکرہ لعل و گہر کا
خلوص و پیار مِل جائے سرِ راہ
تو سمجھو با خدا دھوکہ نظر کا
طبیعت اسفل و سافل سے بد تر
جنوں تسخیرئی شمس و قمر کا
بے چاری قوم مایوس و پریشاں
جنوں چارہ گروں کو مال و زر کا
نہ کوئی بات نہ رمز و کنایہ
مزا کیا آئے ایسے ہم سفر کا

0
110