| کش میں خمار ہے کوئی مد نہ مے کشی میں |
| ہم آج مات کھا کے آئے ہیں عاشقی میں۔ |
| شکوہ نہ ہے شکایت وعدہ شکن مرے سن |
| کوئی تو مسئلہ ہے پھر میری ہی گھڑی میں۔ |
| بادل برس رہے ہیں کٹیا ٹپک رہی ہے |
| مزدور سو رہے ہیں مخمور جھونپڑی میں۔ |
| عالم کی رونقیں پھر پھیکی ہی پڑ گئیں سب |
| تصویر وہ لگائی جو دل کی اک گلی میں۔ |
| ہاں جلتے دل بجھائے ہاں روتے رخ ہنسائے |
| ہر زخم کا ہے مرہم ہر دوا شاعری میں۔ |
| اپنی نظر پہ اس کی بالکل نظر نہیں ہے |
| بس اک یہی کمی ہے یاں آج آدمی میں۔ |
| دو گز زمیں ملی ہے،دو گز کفن ملا ہے |
| کیا کیا ملا حیاتؔ اِس دو دن کی زندگی میں۔ |
معلومات