دکھ نیا دو، ہجر کو میرے سجاؤ
دل میں رہ کر خواب میں ڈالو پڑاؤ
موسمِ گُل، رحمتِ یزدان ہے
گیسوؤں میں خوب سے گجرے لگاؤ
آنکھیں موندے ہوں، جدائی کا ہے خوف
وصل کی شب ہے، مرا گھونگھٹ اٹھاؤ
وصل تھا، اللہ! کوئی جنگ تھی
تن بدن جیسے ہوا ہے گھاؤ گھاؤ
آزما کر دیکھتے ہیں ضبطِ چشم
کس قدر اس حسن کا چلتا ہے داؤ
یوں تو ہم مقتل میں آنے کے نہیں
مار ڈالو گے ہمیں سوگند کھاؤ
ابتدائے خبط میں تنہاؔ نہ تھے
اب مگر، چھوڑو، چلو تم لوگ جاؤ

0
154