حیرت ہے کہ اس سے تو مخاطب بھی نہیں تھے
اس نے جو کہے لفظ مناسب بھی نہیں تھے
ہم کون سے مغلوں کے قبیلے میں پلے ہیں
پھر کیسے کہیں حفظِ مراتب بھی نہیں تھے
ہم اہلِ تذبذب پہ یہ الزام کڑا ہے
ہم اپنی طرف غیر کی جانب بھی نہیں تھے
کہتی ہے کہ اک زہر تھی مردانگی میری
رشتوں میں کبھی اتنے تو غالب بھی نہیں تھے
الزام بنے لفظ لکھے تھے جو وفا میں
جو اس نے نکالے تھے مطالب بھی نہیں تھے
اک وہم نما زندگی یاں ہم نے گذاری
حاضر بھی نہ تھے ہم یہاں غائب بھی نہیں تھے

43