| ہمیں خدا کے غضب سے ڈرا کے بیٹھے ہیں |
| اور آپ حُسن کی محفل سجا کے بیٹھے ہیں |
| بتاؤ شیخ ذرا تو یہ ماجرا کیا ہے؟ |
| یہ لوگ کیوں وعظ اپنی بھُلا کے بیٹھے ہیں |
| گناہ میں ہے سرور ایسا کچھ ضرور کہ یاں |
| جوان و پیر سب ایماں لُٹا کے بیٹھے ہیں |
| بٹھا کے پاس حسینوں کو شیخ کہتا ہے |
| ہمارے ساتھ ملائک خدا کے بیٹھے ہیں |
| ہماری توبہ خدا۔ ایسے پارساؤں سے |
| جو تیری ذات تماشہ بنا کے بیٹھے ہیں |
| مِری نظر میں ہیں زاہد سے وہ فقیر اچھے |
| رضا پہ رب کی جو دنیا بُھلا کے بیٹھے ہیں |
| بچا کے رکھنا تُو ایمان اپنا زیدؔی یہاں |
| شریر چار سُو فتنہ اُٹھا کے بیٹھے ہیں |
معلومات