میرے جسم سے میری روح تک |
ایک گھنی اداسی پھیلی ہے |
جس کی تند لہریں دھائیں بھائیں |
امیدوں کے ساحلوں سے ٹکرا کر |
میری جسم و جاں کی بنیاد کو |
جھنجھوڑتی ہیں |
ایسا شکتہ دلی کا تلاطم |
ان روشنیوں کے جزیروں کو |
سیاہی میں ڈبو دیتی ہے |
جو میرے وجود کی کسی گوشے میں |
بچ گئے ہیں |
جن پر وجود کے گلاب کھلتے ہیں |
جن گلابوں کی خوشبو سے |
میرے وجود کا چمن ابھی روشن ہے |
ایسے ہنگامے میں |
جو لوگ ابھی تک زندہ تھے مجھ میں |
ایک ایک کر کے |
بحرِ کشاکش میں اتر رہے ہیں |
عجب افراتفری میں مر رہے ہیں |
اور وہ خواب نگری |
جو میں نے دل کی زمیں پر بسائی تھی |
وجود کی خوشبو جو مہکائی تھی |
جسکی مٹی کو میں نے |
اپنے اشکوں سے سیراب کیا تھا |
ایک بیاباں بنتی جا رہی ہے |
جس کی فضا گرد آلود ہے |
تمناؤں کے خون سے |
جس میں ایک ایک خواب |
آئینے کی طرح |
روز ٹوٹتا ہے |
میں دور سے جب دیکھتا ہوں |
اپنا شہرِ وجود کا حال |
تو سوچتا ہوں |
یہ جو ہو رہا ہے |
اگر یہی ہوتا آیا ہے۔۔۔ یہی ہوتا ہے |
یہی ہوگا۔۔۔ یہی ہونا ہے |
تو میں کس سے لڑ رہا تھا |
کیوں ایسی کشمکش سے بھاگتا ہوں |
دور کسی آسماں میں رہنے لگتا ہوں |
سو میں خواب تھا ایک لباس تھا |
ایک کردار تھا ایک اداکار تھا |
جو ہر دم کہیں بے قرار تھا |
اور یوں عجب طرح کی اداکاری تھی |
گوشہ گوشہ شرم ساری تھی |
سو وہ جو میں تھا! |
وہ میں تھا ہی نہیں |
سو ایسا ہے تو چلو ٹھیک ہے چلنے دو |
ایک انہونی میں یوں ہی بے سبب جلنے دو |
معلومات