یوں تو نہیں کہ وہ کبھی تنہا نہیں گیا
محفل سے اُٹھ کے پر وہ اکیلا نہیں گیا
سودا ضمیر کا یہاں پہلے بھی تو ہوا
پہلے یہ کھیل کیا کبھی کھیلا نہیں گیا
میں جب بھی اس کے حسن کا قصّہ بیاں کروں
کہتے ہیں تم سے ٹھیک سے دیکھا نہیں گیا
موقع ملا جسے وہ بہانہ کرے گا کیا
کیوں اس سے اس مقام پہ بیٹھا نہیں گیا
تم نے کہاں وفا سے نبھائی ہے دوستی
کہتے ہو ٹوٹ کر مجھے چاہا نہیں گیا
اس کو بھی لوٹ آنے پہ احساس یہ ہوا
وہ دور خود گیا تھا کنارا نہیں گیا
پچھتا رہا تھا وہ جو گیا چھوڑ کر کبھی
آیا تو لوٹ کر وہ دوبارہ نہیں گیا
تخلیقِ کائنات سے طارق ہو یہ عیاں
دن رات کو یونہی تو بنایا نہیں گیا

0
31