حاکم و عادل کے جب منصب کا پردہ کُھل گیا
عام لوگوں سے چھپا مذہب کا پردہ کُھل گیا
اپنی اپنی ہر کوئی سمجھا تھا بہتر فکر کو
سچ پہ جو قائم تھا اس مکتب کا پردہ کُھل گیا
چاند سا مکھڑا چھپا رکھا تھا کب سے زلف نے
زلف لہرائی جو اس نے شب کا پردہ کُھل گیا
گرچہ رکھا دیر تک مٹّی نے ہم کو ڈھانپ کر
صاف کی تصویر جب ہم سب کا پردہ کُھل گیا
دیکھ پائے آنکھ وہ اُٹھنے کی ہمّت جس میں ہو
طور پر اترا ہے جب کیا رب کا پردہ کُھل گیا
پوچھتے ہو کیا کسی نے اس کو دیکھا ہے کبھی
دیکھنے والوں کا اس سے کب کا پردہ کُھل گیا
نام لے کر دیں کا دھوکہ دے رہے ہیں کون لوگ
ہو گئے ہیں سب عیاں اس ڈھب کا پردہ کھل گیا
راز داری اس نے رکھی تھی تعلق کی مگر
اس نے خود ظاہر کیا جب تب کا پردہ کُھل گیا
دیکھ کر ساقی کو طارق لوگ پہچانیں نہ جب
کون پیتا ہے کہاں مشرب کا پردہ کُھل گیا

0
44