مجھ کو جو چاہیے تھا وہ مجھ کو ملا نہیں |
سو اب مرے لبوں پہ کوئی التجا نہیں |
مجھ کو گلہ کیا ہوتا تو سب سے ملا مگر |
ہاں اک گلہ ہے وہ یہ تو مجھ سے ملا نہیں |
ہم ہیں اسی جہاں کے کہیں اور کے نہیں |
یہ ہے تمہاری مرضی یقیں کر لے یا نہیں |
اب کس سے ہے توقع کہاں جاو گے اے دل |
کم ظرف اس جہاں میں کوئی با وفا نہیں |
برباد ہونا ہی تھا سو برباد ہو گیا |
اب مجھ کو میری جان کسی سے گلہ نہیں |
وہ بھولی لڑکی مجھ کو بھلا کیسے جانتی |
جو اس کے سامنے میں کبھی بھی کھلا نہیں |
تم کو ابھی ہے فکر مرے دل کی دنیا کی |
وہ ہو گئی تباہ وہاں کچھ بچا نہیں |
گلیاں بہت خموش کہیں ہائے ہو نہیں |
کیا کچھ ہوا ہے یارو میں نے کچھ سنا نہیں |
الفاظ ہی قلم کو میسر نہیں کہیں |
محسوس جو کیا ہے وہ میں نے لکھا نہیں |
پھر سے جگائے کون تمناؤں کو مری |
اس صحنِ بے دِلی میں وہ بادِ صبا نہیں |
جانے ہوا کیا اس کو کہاں کھو گیا ہے وہ |
اس کا بہت دنوں سے کہیں کچھ پتا نہیں |
تم توڑ ڈالو آج مراسم جو مجھ سے تھے |
بن تیرے جی لوں گا جا کوئی مسئلہ نہیں |
کچھ لوگ اپنے آپ کو سمجھے خدا مگر |
وہ بھی خدا کے بعد کسی کے خدا نہیں |
اک بے دلی تھی ساتھ، سو دنیا سے ہار کر |
رشتہ نبھا رہا ہوں، مگر دل لگا نہیں |
اک بوجھ ہے حیات جو سر پر دھرا ہوا |
اک خواب تھا جو پورا ہوا پر ملا نہیں |
جو عکس تھے جو خواب تھے سب مر چکے ہیں وہ |
اب میں ہوں اور مجھ میں کوئی دوسرا نہیں |
اک عمر میں نے خود سے نبھائی ہے دشمنی |
اب مجھ کو اپنے آپ سے بھی واسطہ نہیں |
اک شور ہے جو دل میں مچا ہے تمام رات |
اک دم ہے جو کسی طرح یارو گھٹا نہیں |
معلومات