اُس تمام وقت ، ایک امتحان میں رہا |
جب وہ میری محبت کے ایقان میں رہا |
وہ میرے ہاتھ کی لکیروں میں تھا ہی نہیں |
جانے کیوں دل اسی کے گُمان میں رہا |
میں اُس کی چاہ میں کہاں کہاں نہیں پھرا |
جنگل گیا، پربت چڑھا ، بیابان میں رہا |
میرے بعد جس نے بھی چاھا ہے اُسے |
بے شک وہ شخص بہت نُقصان میں رہا |
میں بھی شاید کوئی ایک روپے کا سِکہ ہوں |
کبھی جیب تو کبھی کاسۂ کبھی میزان میں رہا |
سوچتا تھا کیسے رہوں گا میں اُس کے بغیر |
اُس کے بغیر فیصل بہت اطمینان میں رہا |
فیصل ملک!! |
معلومات