پھول پھیلے نہ تھے جو گملے میں
آج سوکھے پڑے ہیں رستے میں
ایک بھی حرف سچ نہیں بولا
اس کو جلدی تھی چھوڑ جانے میں
تیری یادوں نے حال پوچھا تھا
جب میں تنہا تھا اپنے کمرے میں
ہم نے کردار وہ نبھانا ہے
جو لکھا تھا ہمارے کھاتے میں
آج وہ خود کو مار ڈالے گا
ایک کردار ہے جو شیشے میں
اس کی تفتیش ہو رہی ہے ابھی
کون مارا گیا ہے جھگڑے میں
ایک تمثیل تھی حقیقت میں
کی مکمل جو ایک جملے میں
اپنی دھرتی پہ جان دی اُس نے
جو لپٹا ہوا تھا جھنڈے میں
کچھ دعائیں میرا اثاثہ ہیں
اور کچھ بھی نہیں ہے حصے میں

44