اداسی لے کے بیٹھے رہتے ہیں گھر میں
غموں کی کشاکش ہے دل کے بھنور میں
کبھی خودبخود یاد آتے ہو دن بھر
کبھی یاد تم کو کیا شام بھر میں
یہ لمحے جدائی کے کیسے گُزاروں
کہ دم گھٹ رہا ہے مرا ہر پہر میں
یہ دل بے سکوں ہے تمہاری طلب میں
گِھرا ہے اُداسی کے اک بحر و بر میں
تمہاری ہی باتیں ہیں دل کی زباں پر
تمہارا ہی قصہ ہے ہر اک خبر میں
کبھی چاندنی میں تڑپتے ہیں تنہا
کبھی یاد تم آئے گہرے سحر میں
کہاں جا کے ڈھونڈیں تمہاری وہ خوشبو
جو بکھری ہوئی تھی کبھی بام و در میں

0
15