دلِ مضطرب کی بڑھی بیقراری
مدینے میں جانے کو جی چاہتا ہے
دیا زخم جو ہے زمانے نے مجھ کو
نبی سے دِکھانے کو جی چاہتا ہے
وہ شہرِ محبت ہمارا مدینہ
دل و جان سے ہم کو پیارا مدینہ
وہ جنت سے افضل محمد کا روضہ
وہیں دل جھکانے کو جی چاہتا ہے
درِ مصطفیٰ پر جو آئے عمر ہیں
محبت میں آنسو بہائے عمر ہیں
میں قربان ہوں آپ پر میرے آقا
یہ سر بھی کٹانے کو جی چاہتا ہے
یہی اِک تمنّا ستاتی ہے مجھ کو
کبھی درد دیتی رلاتی ہے مجھ کو
بلا لیجئے در پہ اے شاہِ بطحا
مدینے میں آنے کو جی چاہتا ہے
مدینے کا منظر تصدق سہانا
فرشتوں کا ہے ہر گھڑی آنا جانا
وہ خاکِ مدینہ وہ ذراّتِ طیبہ
نظر میں بسانے کو جی چاہتا ہے

0
243