محبت کے وہ تال میں آجاۓ گا
وفا جب تری چال میں آجاۓ گا
کیا کرتے تیرے لیے ہم نوا اب
جفا جب اسی سال میں آجاۓ گا
وفا کے قدم دنیا بھی روک دے گی
وفا اپنی جب چال میں آجاۓ گا
ستم سے گلہ جب کرے گا جفا تو
وفا کے خدوخال میں آجاۓ گا
نشاں دیکھ کے بولا فیضان بھی اب
چمن اپنے خود حال میں آجاۓ گا
فیضان حسن طاہر بھٹی

0
27
457
وفا اور جفا دونوں مؤنث ہیں - آپ نے مذکر باندھا ہے

0
وفا اور جفا مذکر بھی باندھ سکتے ہیں

0
وفا جفا کی طلب گار ہوتی آئی ہے - غالب
جفائیں کر کے اپنی یاد ، شرما جائے ہے ، مجھ سے - غالب
ہم بُوالہوس بنے تو وفا عام ہو گئی- مصطفی زیدی

براۓ کرم کسی استاد شاعر کے کلام سے کوی مثال دیجیے کہ وفا اور جفا کو مذکر بھی باندھا جاتا ہو۔
میں سیکھنا چاہتا ہوں

0
حروف تہجی کی تذکیر و تانیث میں بعض مولفین نے کچھ کا کچھ لکھ دیا ہے۔ اس کتاب میں حضرت امیر مینائی رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلے پر عمل کیا گیا ہے۔ وہ اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ جن حرفوں کا تلفظِ اردو بے تے کے وزن پر ہے وہ مونث ہیں اور باقی مذکر ؛اِلّا ط اور ظ مستثنی ہیں۔ یعنی ب پ ت ٹ ث چ ح خ ر ڑ ز ژ ط ظ ف ہ ی مونث ہیں اور ا ج د ڈ ذ س ش ص ض ع غ ق ک گ ل م ن و مذکر ہیں، ط اور ظ کو مستثنی فرمایا۔ یہ بہ اعتبار تلفظِ اردو کے ہے۔ ورنہ عربی تلفظ میں با تا اور طا ظا کا ایک وزن ہے۔

0
سر یہ تو حروف کی تذکیر ہ تانیث کی بات ہوئ کہ حرف "ب" مذکر ہے یا مونث، مٰیں تو لفظوں کی بات کر رہا ہوں کہ لفظ وفا ،مذکر ہے یا مونث۔ کوئ مثال دیں کسی بڑے شاعر یا مصنف کی کہ اس نے وفا جفا کو مذکر استعمال کیا ہو۔

0
جانشین حضرت امؔیر مینائی حافظ جلیل حسن جلیلؔ نے اس قیمتی کتاب کے ذریعہ سے زبان اردو میں تذکیر و تانیث کا ایک فتاویٰ مدون کر دیا ہے جو اردو کی ایک عظیم الشان خدمت ہے کہ مدت ہائے دراز تک زندہ و یادگار رہے گی۔ اردو میں سب سے بڑا جھگڑا یہی تذکیر و تانیث کا ہے جس کے لیے باوجود متعدد کوششوں کے کسی قسم کے قواعد نہیں منضبط ہو سکے۔

اردو میں یہ دشواری ہے کہ ہندوستان کے ہر شہر اور ہر قریہ تک میں تذکیر و تانیث کے اعتبار سے اختلاف پڑا ہوا ہے۔ بے شک دہلی اور لکھنؤ کی زبان معیار قرار پا گئی ہے مگر کوئی ایسی مستند کتاب موجود نہیں جس کے ورق الٹ کے معلوم کیا جا سکے کہ اہل زبان کے نزدیک کون لفظ مذکر ہے اور کون مونث۔ اس پر طُرّہ یہ ہے کہ خود دہلی اور لکھنؤ والوں میں تذکیر و تانیث کے متعلق صدہا اختلافات ہیں اور اختلافوں سے زیادہ باہمی غلط فہمیاں ہیں۔

0
جسطرح اوقات ہے یہ مونث ہے مگر عربی میں اسے مذکر باندھتے ہیں اسی طرح اسکو بھی مذکر باندھ سکتے ہیں مزید ان شاءاللہ تحقیق کر لیتے ہیں بھائی جان۔میں اصل میں اٹلی ہوں اسلیے ریسرچ میں پرابلم آجاتی ہے ٹائم کی وجہ سے ۔

0

وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
حسرت موہانی

0
حضرت آپ پورا وقت لیجیۓ
یہ مثال غلط لکھی ہے آپ نے یہاں چایتا ہوں کی ضمیر وفا نہیں ہے بلکہ تجھ سے ہے
میں تجھ سے چاہتا ہوں - وفا کی تذکیر کی بات نہیں ہو رہی۔
ہر لغت میں لفظ کے آگے لکھا ہوتا ہے کہ مونث ہے یا مذکر۔ جہاں اختلاف ہوتا ہے وہ بھی لکھا جاتا ہے۔
وفا جفا میں کوئ اختلاف نہیں۔ اس کا استعمال مذکر کبھی نہیں دیکھا

0
اور میرا مقصد صرف اس جانب اشارہ کرنا تھا آپ کو میری بات صحیح نہیں لگی تو اس دفع کیجیۓ اپنا وقت نہ برباد کریں
میرا ارادہ کسی بحث میں پڑنا نہیں تھا۔ آپ کو صحیح لگے تو اسے مذکر ہی باندھیۓ

0
چلیں آپ درست ہوں گے بھائی جان بہت بہت شکریہ آپکا آپ نے اصلاح فرمائی
ہر کام کے لیے ابتدا چاہی آہستہ آہستہ مذکر بھی لوگ لکھنا شروع کردیں گے کیوں کے شاعری کا بولنے کے انداز سے بہت گہرا تعلق ہے

0
وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں
وفا تجھ سے !
وفا کو ادھر کہا جارہا ہے تجھ سے
وفا کو مذکر کیا نہیں باندھا جارہا۔
آپکا لکھا ہوا جملہ
میں تجھ سے چاہتا ہوں
اس میں "میں"تو لکھا نہیں گیا آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں وفا سے نہیں کہا جارہا۔ادھر محترم وفا کو کہا جارہا ہے تجھ سے
لہذا یہ مزکر باندھا گیا ہے
اگر مناسب لگے تو مزید وضاحت کر دیں

0
وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں
وفا تجھ سے !
وفا کو ادھر کہا جارہا ہے تجھ سے
وفا کو مذکر کیا نہیں باندھا جارہا۔
آپکا لکھا ہوا جملہ
میں تجھ سے چاہتا ہوں
اس میں "میں"تو لکھا نہیں گیا آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں وفا سے نہیں کہا جارہا۔ادھر محترم وفا کو کہا جارہا ہے تجھ سے
لہذا یہ مزکر باندھا گیا ہے
اگر مناسب لگے تو مزید وضاحت کر دیں

0
سر یہ اردو صرف و نحو کی بنیادی باتیں ہیں - "میں" کا لفظ یہاں محذوف ہے میں یہ آپ کو کم از کم اس فورم میں نہیں سمجھا سکتا۔
جیسے آپ کو صحیح لگے کر لیں - میرا کام تھا نشاندہی کرنا ۔ آپ کی مرضی ہے ماننا یا نہ ماننا۔
رہنے دیں اس بحث کو۔

0
بھائی جان شکریہ آپ نے اصلاح فرمائی۔
اللہ تعالی مزید آپکو علم نافع عطاکرے ۔بہت بہت شکریہ بھائی۔۔۔

0
ارشد صاحب کی بات سے مجھے مکمل اتفاق ہے۔ وفا، جفا وغیرہ مونث ہیں

بھائی جان شکریہ آپ نے اصلاح فرمائی۔
اللہ تعالی مزید آپکو علم نافع عطاکرے ۔بہت بہت شکریہ بھائی۔۔۔

ارشد بھائی اور ذیشان بھائی اصلاح فرما دیں

0
حضرت زرا وضاحت کیجیۓ اصلاح سے آپ کی کیا مراد ہے۔
یہ مذکر مونث تو ایسی بات تھی کہ جس کے بغیر تو نثر بھی لکھی نہیں جا سکتی اس لیۓ میں نے بتانا مناسب سمجھا
اس سے زیادہ لکھنا آپ کو پسند نہیں آے گا

0
جفا اور وفا سے آگے بتائیں کیا اور غلطیاں ہیں

0
جناب آپ غصے میں کیوں ہیں ۔بھائی جان پریشان نہ ہوں آپ وفا اور جفا سے نکل آئیں۔آپ نے بتایا اس لیے شکریہ ادا کیا۔ ہم آپ کے شکر گزار ہیں

0
دیکھیں آپ نے کہا کسی بڑے شاعر نہ ایسا نہیں لکھا ۔بڑے شاعر بھی محنت کر کے بڑے بنے ہیں اور آپ انکو کاپی کر رہے ہیں ہم بھی آپ جیسے بھائی سےسیکھ لیں گے۔اس لیے اس بحث سے نکل آئیں ۔ اللہ آپ کو مزید ترقی دے۔آمین

0
کبھی جفا پہ وفا کا گماں بھی ہوتا ہے
جفا تو خیر جفا ہے وفا کا ذکر ہی کیا
تری وفا بھی مجھے ناگوار گزری ہے
اگر وفا بھی بہ اندازۂ جفا کرتے
تو اہلِ درد محبت کا حق ادا کرتے
نہ یہ معتبر ہیں نہ وہ معتبر
جفا کے تقاضے وفا کے صلے

0
سر میں ناراض ہر گز نہیں مگر آپکی غزل اور ان مثالوں سے ہی پتہ چلتا ہے کہ آپکا مطالعہ بلکل نہیں ہے اور یہی بات تھی جس کے لیے میں نے لکھا تھا آپ کو برا لگے گا
پہلے ان مصروعوں کی بات سن لیجیے

کبھی جفا پہ وفا کا گماں بھی ہوتا ہے ----- ٰیہاں ہوتا ہے گمان کے لیے ہے جفا کے لیے نہیں
جفا تو خیر جفا ہے وفا کا ذکر ہی کیا ------ یہاں ذکر ہی کیا مونث ذکر کے کیے آیا ہے وفا کے لیے نہیں
اگر وفا بھی بہ اندازۂ جفا کرتے ------- یعنی ہم کرتے یہ کرتے وفا اور جفا کے لیے نہیں ہے
جفا کے تقاضے وفا کے صلے ----- یہ "کے" کا لفظ جمع کی وجہ سے ہے۔ جیسے کوی لکھے یہ عورتوں کے گِلے شکوے
تو کیا عورت مذکر ہوا؟
یہ بنیادی باتیں ہیں زبان کی اور آپ ان سے ہی ناواقف ہیں۔

بجاۓ اسکے کہ آپ میری بتائ ہوئ غالب کی پہلی مثالوں پہ غور کرتے۔ لغت دیکھتے آپ مصر رہے کہ آپ صحیح ہیں کہ جفا مذکر ہے تو بتائیں میں آپکے کلام کی اصلاح کیسے کر سکتا ہوں؟

اگر یہ بات جو میں نے اوپر لکھی درست ہے تو مجھے آپکے کلام کی اصلاح نہیں کرنا چاہیۓ اور جو میں نے لکھا وہ غلط ہے تب تو میں اس قابل ہی نہ ہوا اور اس صورت میں بھی مجھے آپکے کلام کی اصلاح نہیں کرنا چاہیۓ۔

0
2۔ اُردو میں استعمال ہونے والے ایسے دیسی الفاظ جِن کے آخر میں الف یا گول ’ہ‘ ہو عموماً مذکر ہوتے ہیں مثلاً رسّا، گھڑی، جوتا، مٹکا، نِوالہ، حُقّہ، چولہا، ڈِبّا وغیرہ لیکن وہ دیسی الفاظ جِن کے آخر میں علامتِ تصغیر کے طور پر الف لگایا گیا ہو، موئنث ہوتے ہیں مثلاً ڈِبیّا، چُوہیا، پُلیا، پُڑیا وغیرہ۔

3۔ سنسکرت سے آنے والے کچھ الفاظ جو اپنی ہندی صورت میں ہمارے یہاں مستعمل ہیں اُن میں آخری الف یقیناً علامتِ ثانیت ہوتی ہے چنانچہ یہ الفاظ اُردو میں موئنث ہی بولے جائیں گے مثلاً مالا، گنگا، جمنا، پُروا، پچھوا، سبھا، جٹا، پوجا وغیرہ۔

4۔ عربی کہ وہ سہ حرفی الفاظ جِن کے آخر میں الف ہو ہمارے یہاں موئنث بولے جائیں گے مثلاً دعا، ادا، بقا، فنا، بلا، وفا، قضا، صدا، دوا، قبا، سزا، جزا یہ سب موئنث ہیں البتہ چند الفاظ اس سے مُستشنیٰ ہیں مثلاً زِنا، عصا، طِلا وغیرہ۔

0
1۔ بھاری بھرکم اور بڑے سائز کی چیزوں کو اُردو میں عام طور پر مذکر کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے جبکہ چھوٹی، نرم و نازک اور نفیس چیزیں عموماً موئنث گردانی جاتی ہیں، مثلاً موٹا اور مضبوط ہو تو رسّا ( مذکر) اور پتلی اور نسبتاً کمزور ہو تو رسّی (موئنث) اسی طرح بڑا اور وزنی ہو تو گولا (مذکر) لیکن چھوٹی اور ہلکی پھُلکی ہو تو گولی (موئنث)۔ یہی صورتِ حال َپگّڑ اور پگڑی، ٹوپ اور ٹوپی، گھڑیال اور گھڑی میں بھی دیکھی جا سکتی ہے لیکن یہ کوئی مستند اصول نہیں ہے کیونکہ اسکے بالکل برعکس کوٹھا محض ایک کمرے کا تاثر دیتا ہے جبکہ کوٹھی ایک وسیع و عریض عمارت ہوتی ہے جس میں بہت سے کمرے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ’توا‘ ایک چھوٹے سائز کی چیز ہے جس پر ایک وقت میں صرف ایک روٹی پکتی ہے لیکن ’توی‘ ایک بہت بڑا توا ہوتا ہے جس پر لنگر کے لئے بہت سی روٹیاں بیک وقت پکائی جا سکتی ہیں۔

پھر یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ ’موتی‘ چھوٹی ’ی‘ پر ختم ہونے کے باوجود ایک مذکر لفظ ہے اور بہت بڑے موتی کے لئے ہمارے پاس ’موتا‘ جیسا کوئی لفظ نہیں ہے۔

0
5۔ ہندی سے آنے والے الفاظ جِن کے آخر میں چھوٹی ی ہوتی ہے انھیں ہمارے یہاں بطور موئنث قبول کیا جاتاہے مثلاً روٹی، بوٹی، نالی، جالی، گالی، تھالی، چکّی، ڈولی، مُولی، سُولی، کٹوری، موری وغیرہ لیکن پانی، دہی، گھی، جی (دِل) اور ہاتھی وغیرہ چھوٹی ی پر ختم ہونے کے باوجود مذکر ہیں۔

6۔ اللہ اور اسکے متبادِل نام سب مذکر ہیں مثلاً خُدا، مولا وغیرہ۔

7۔ صحائفِ آسمانی موئنث ہیں مثلاً انجیل، توریت، زبور وغیرہ مگر قرآن مذکر ہے۔ ہندوؤں کی مقدس کتابیں گیتا اور رامائن بھی موئنث ہیں۔

8۔ شراب موئنث ہے اور دیگر مُنشّی اشیاء بھی مثلاً بھنگ، افیون، چرس، کوکین وغیرہ بھی موئنث ہے۔ شراب کی تمام ولائتی اقسام موئنث ہیں مثلاً وہسکی، جِن، واڈ کا، شمپین، شیری، مارٹینی، بیئر البتہ شراب کی ایک قسم مذکر ہے: ٹھّرا!۔۔۔ لیکن ُرکیے، فارسی کا ’بادہ‘ بھی تو مذکر ہے! سگریٹ اور بیڑی اگر بڑے سائز کی بھی ہو تو موئنث ہی کہلائے گی لیکن سگار ہر صورت میں مذکر ہے، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا۔

9۔ ستارہ چونکہ مذکر ہے اس لیے اکثر ستاروں کے نام مذکر ہیں لیکن زہرہ، ناہید اور مُشتری موئنث شمار ہوتے ہیں۔

10۔ کالا، پیلا، نیلا، مٹیالا وغیرہ سب رنگ بُنیادی طور پر تو مذکر ہیں لیکن چونکہ صِفت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اس لیے مذکر اسم کے ساتھ مذکر اور موئنث اسم کے ساتھ موئنث ہو جاتے ہیں۔ مثلاً کالا گولا، نیلی چھتری، ہرا پان، پیلی پتّی، مٹیالا بادل، روپہلی دھوپ وغیرہ۔

11۔ زبان اور بولی موئنث ہیں اور تمام زبانوں کے نام بھی موئنث ہیں مثلاً فارسی، عربی، بلوچی، سندھی، یونانی، عبرانی وغیرہ۔ تاہم اِن کے آخر میں جو چھوٹی ’ی‘ ہے وہ علامتِ تانیث نہیں بلکہ علاقے یا قوم کی نسبت کو ظاہر کرتی ہے اور جِن زبانوں کے نام چھوٹی ی پر ختم نہیں ہوتے مثلاً پشتو، سنسکرت اُردو، ہندکو، فرنچ، جرمن، ڈچ، وہ سب بھی موئنث ہی شُمار ہوتی ہیں۔ لفظ اُردو اپنے قدیم معانی میں ( لشکرگاہ، فوجی پڑاؤ، شاہی دربار) مذکر تھا لیکن اب زبان کے مفہوم میں موئنث ہے۔

12۔ آواز کی نقل میں بنے ہوئے الفاظ سب موئنث ہیں مثلاً چھم چھم، رِم جھِم، سائیں سائیں، ٹِپ ٹِپ، سنسناہٹ، گڑ گڑاہٹ، دھم دھم وغیرہ۔

13۔ سال یا سن اُردو میں ہمیشہ مذکر استعمال ہوتا ہے مثلاً 1965 ان کی زندگی میں بڑا اہم تھا۔ تمام اسلامی، دیسی اور انگریزی مہینوں کے نام مذکر ہوتے ہیں جیسے نومبر گزر گیا، محرم آنے والا ہے۔ البتہ کچھ لوگ جنوری، فروری، مئی اور جولائی کو ( آخر میں چھوٹی ’ی‘ ہونے کی وجہ سے) موئنث کے طور پر لیتے ہیں مثلاً جنوری گزر گئی فروری آگئی ۔ جمعرات کے سوا ہفتے کے تمام دِن مذکر ہیں۔ وقت کی تقسیم کے لیے مقرّر تمام اِکائیاں مذکر ہیں یعنی گھنٹہ، منٹ، سکینڈ، لمحہ، لحظہ، دقیقہ وغیرہ سب مذکر ہیں۔

14۔ چاندی کے سوا تمام دھاتیں اور قیمتی پتھر مذکر ہوتے ہیں مثلاً سونا، لوہا، تانبا، پیتل، ٹِین، جَست اور ہیرا، جوہر، لعل، زمرد، یاقوت، نیلم پکھراج وغیرہ سب مذکر ہیں۔

15۔ سب پہاڑوں کے نام مذکر ہوتے ہیں البتہ دریاؤں کے مذکر اور موئنث دونوں ہوتے ہیں۔ راوی، ستلج، چناب، جہلم، سندھ مذکر ہیں لیکن گنگا، جمنا وغیرہ موئنث ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اُردو میں دریا بذاتِ خود مذکر ہے لیکن ہندی میں ندی موئنث ہے چنانچہ اُردو کے تمام مذکر دریا ہندی میں جا کر موئنث ہو جاتے ہیں (راوی ندی لاہور کے پاس بہتی ہے)

16۔ ت پر ختم ہونے والے عربی اور فارسی کے اسماء( جبکہ ت سے پہلے والے حرف پر زبر ہو ) موئنث بولے جاتے ہیں مثلاً شوکت، حشمت، رحمت، زحمت، حُرمت، حیرت، دولت، ثروت، صولت، عصمت، خدمت وغیرہ اور انھی کے نمونے پر ہندی سے آنے والے اسماء بھی موئنث بن گئے مثلاً چلت پھرت، بچت، ُجگت، چاہت، چپت (تھپڑ) رنگت، سنگت، کہاوت، کھنڈت، کھپت، لاگت وغیرہ سب موئنث ہیں لیکن ’ شربت‘ مذکر ہے۔

اُردو میں تذکیرو ثانیت کے مسئلے کو گزشتہ ڈیڑھ سو سال کے دوران شعر و شاعری کے باعث بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ انیسویں صدی کے وسط سے بیسویں صدی کے آغاز تک مذکر موئنث کے جھگڑے پر سینکڑوں رسالے کتابچے اور مقالے لکھے گئے۔

اِن مضمون نگاروں کا بُنیادی مقصد غزل میں الفاظ کی درست تذکیرو ثانیت کو یقینی بنانا تھا۔ دہلی سکول اور لکھنؤ سکول کے ماہرینِ عُروض میں اس موضوع پر ساٹھ ستر برس تک گرما گرم بحثیں جاری رہیں اور مذکر موئنث کے مسئلے پر شعراء میں کئی ذیلی مکاتبِ فکر بھی پیدا ہو گئے۔

چونکہ غیر جاندار چیزوں کی جِنس کوئی فطری امر نہیں ہے بلکہ ہماری خود ساختہ چیز ہےاس لئے حتمی طور پر یہ مسئلہ ابھی حل نہیں ہو سکا اور شاید مستقبل میں بھی حل نہیں ہو سکے گا۔

0