دو ٹکڑے آسماں پہ قمر دیکھتے رہے
انگشتِ مصطفیؐ کا اثر دیکھتے رہے
دیکھا عدو نے شانۂ احمدؐ پہ جب حسینؑ
چلتے تھے دل پہ تیر و تبر دیکھتے رہے
گودی میں شہؑ کو دیکھ کہ جلتے تھے شیخ جی
صدمے سے تھامے اپنا جگر دیکھتے رہے
فرزندِ فاطمہؑ ہے یہ حیدرؑ کا جانشیں
سب نُورِ کبریا کا ثمر دیکھتے رہے
کس طرح سے بیان ہو رزم و وغا کا حال
گرتے ہوئے لعینوں کے سر دیکھتے رہے
ابلیس زادوں پر تھا کیا اس طرح سے وار
دو ٹکڑے ہوتے انکے پسر دیکھتے رہے
بجلی کی طرح دشت میں چلتی تھی ذوالفقار
جبریلؒ شاہِ دیںؑ کا ہنر دیکھتے رہے
جو بچ گیا تھا شیرِ دلاورؑ کے وار سے
رہوار سے کچلتا مگر دیکھتے رہے
اللہ کا جلال جو تیرا ہے وہ جلال
صائب وہ سارے بانئِ شر دیکھتے رہے

0
4