کچھ نہ سمجھا میں وہ بولتا رہ گیا
اس کے لفظوں کو میں تولتا رہ گیا
میں کہ سونا تھا وہ خاک جانا مجھے
مجھ کو مٹی میں وہ رولتا رہ گیا
میں تو تریاق لانے گیا تھا مگر
زہر جیون میں وہ گھولتا رہ گیا
وہ سمندر کو سمجھا وہ منزل پہ ہے
اور سفینہ مرا ڈولتا رہ گیا
شامِ غم تھی چھلکتے ہوئے جام تھے
دل کی گرہوں کو میں کھولتا رہ گیا

0
57