کچھ نہ سمجھا میں وہ بولتا رہ گیا |
اس کے لفظوں کو میں تولتا رہ گیا |
میں کہ سونا تھا وہ خاک جانا مجھے |
مجھ کو مٹی میں وہ رولتا رہ گیا |
میں تو تریاق لانے گیا تھا مگر |
زہر جیون میں وہ گھولتا رہ گیا |
وہ سمندر کو سمجھا وہ منزل پہ ہے |
اور سفینہ مرا ڈولتا رہ گیا |
شامِ غم تھی چھلکتے ہوئے جام تھے |
دل کی گرہوں کو میں کھولتا رہ گیا |
معلومات