جانتی تھی کیا براہیمی نظر اِس راز کو |
آگ ہو جائے گی ٹھنڈی دیکھ کر جانباز کو |
اب تو اس کی ہر ادا پہلے سے بڑھ کر ہے حسیں |
عشق نے صیقل کیا ہے حسن کے انداز کو |
گُفتگو اس سے کئے بِن رہ نہ سکتے تھے کبھی |
اب تو بتلاتے نہیں وہ درد بھی ہمراز کو |
ابتدا میں ایک سجدے سے گریزاں جو ہوا |
آج بھی مانے ہے کب انسان کے اعزاز کو |
جو چٹانیں چھوڑ کر اب آگیا محلوں میں ہے |
کیا ممولے سے لڑائے گا کوئی شہباز کو |
آسماں سے جس کا اپنا رابطہ ہے ہی نہیں |
روک پائے گا بھلا کیسے مری پرواز کو |
میں نے تو ہر سمت دے دی ہے صدائے صبحِ نو |
کوئی شاید جاگ جائے سن کے اس آواز کو |
کیوں مریضِ وقت کا ملتا نہیں کوئی طبیب |
ڈھونڈتی پھرتی ہیں نظریں گو کسی اعجاز کو |
پھر نظر آئے گا موسٰی پھینکتے اپنا عصا |
ہارتے دیکھیں گے پھر لائے جو نو سر باز کو |
بے تکلّف لوگ بھاتے ہیں مرے دل کو بہت |
کیسے رد کرتا بھلا پھر دعوتِ شیراز کو |
طارق اہلِ شہر سے اپنا بھروسہ اُٹھ گیا |
ڈھونڈتے ہیں گاؤں میں چل کر کسی دم ساز کو |
معلومات