یہ دھڑکن بھلا کیوں دل سے زائل ہو جاتی ہے
کہ دیوانگی اوساں کی قائل ہو جاتی ہے
اگر بجلی ہے اس میں تو زندہ ہے جسم بھی
ٹھہر جائے تو پھر موج ساحل ہو جاتی ہے
کہاں تاب لا سکتے تبسم کا اُن کے تم
وہ دیکھے طبیعت کیسے گھائل ہو جاتی ہے
ہوا میں رچی جھنکار اک آبشار کی
پلٹ کے اگر دیکھوں تو پائل ہو جاتی ہے
تعیّن بھی جائے وصل کا کرنا ہے ابھی
ہوا بھی رقیبوں میں یہ شامل ہو جاتی ہے
وہ زُلفیں نہیں کرتے ہیں آزاد اپنی کیوں
'سیاہی' میں کالی راتیں قائل ہو جاتی ہیں
زرا دم لیں وہ، ٹھرا رہے دل ہمارا بھی
وگرنہ خوشی بھی غم کی حامل ہو جاتی ہے
اگر قربتوں کی چاہ کی ہے کبھی مِؔہر
انا شوق میں کیوں میرے حائل ہو جاتی ہے؟
-------------٭٭٭-------------

0
65