یہ جان کر کہ تو میرا نہیں رہا |
کسی پہ مُجھ کو بھروسہ نہیں رہا |
یہ خط یہ پھول کسی کام کے نہیں |
کہ ان میں اب وہ خزانہ نہیں رہا |
ملا خدا سے بڑی ضد کے بعد وہ |
کہ اب خدا سے بھی شکوہ نہیں رہا |
شبِ فراق کی ہو کیا خبر کہ تو |
کسی کی یاد میں روتا نہیں رہا |
زمانے سے کرے کیا ہی گِلَہ کہ جب |
مرا یہ یار بھی میرا نہیں رہا |
معلومات