| وا ہوں تو منتظر تری آنکھیں ہیں |
| جو موند لوں تو دل مری آنکھیں ہیں |
| تارے چمکتے ہیں یہ جو راتوں میں |
| بچھڑے پیاروں کی سبھی آنکھیں ہیں |
| ناظر نظارہ ایک ہوئے دونوں |
| تیری ہیں یا کہ شیشے کی آنکھیں ہیں |
| لگتا ہے ہم دو ایک ہی ہوتے تھے |
| ویسے ہی سپنے ایک سی آنکھیں ہیں |
| پل بھر میں من کی روشنی بجھتی ہے |
| مرشد کی جب بھی روٹھتی آنکھیں ہیں |
| راشد کا دل، نگہ کی حرارت سے |
| پگھلا ہوا اور اشکئی آنکھیں ہیں |
| راشد ڈوگر |
معلومات