تیری سننے کو دُعا ، اُس نے کہا آؤں گا
بخش دینے کو ہر اک تیری خطا آؤں گا
وہ تو کہتا ہے پکارا جو مجھے پیار کے ساتھ
کچے دھاگے سے بندھا میں تو چلا آؤں گا
اس طرف آئے جو یہ سوچ کے پھر آئے وہ
دل میں بیٹھے ہوئے سب خوف ہٹا آؤں گا
میں نے پتھر سی زمینوں پہ بنایا رستہ
میں تو رستے میں پڑے کانٹے اُٹھا آؤں گا
کان جو کھولے جو آنکھوں سے ہٹا دے پردے
جو زباں کر دے عطا دے کے صدا آؤں گا
کچھ نہ کچھ اپنے جو ماحول کو روشن کر دے
کوئی چھوٹا سا دیا میں بھی جلا آؤں گا
عارضی دنیا کی لذ ذات میں پڑ کر یارو
وقت ضائع نہ کرو بسب کو بتا آؤں گا
منتظر میرا خدا ہے کہ میں کب اُس کی طرف
چھوڑ کر دنیا کے دھندوں کو چلا آؤں گا
کیوں نہ طارق مجھے پیغام محبّت کا ملا
دل میں اب ہجر کا میں روگ لگا آؤں گا

0
9