تم ہار گئے شرط کہ توڑو گے جفا سے
اس بار مجھے توڑ کے دیکھو تو وفا سے
سرکش ہوں جھکوں گا نہ کبھی جبر کے آگے
شاید تمہیں مل جاؤں میں اس بار دعا سے
جو بھی ملا مجھ کو مجھے دھوکے ہی ملے ہیں
شکوے مجھے لوگوں سے شکایت ہے خدا سے
پتھر نے نہیں پر مجھے ریشم نے ہے توڑا
آندھی سے نہیں مجھ کو گلہ بادِ صبا سے
ملنا ہے مجھے گر تو مری شرط یہی ہے
آؤ کبھی نزدیک مرے سر کو جھکا کے

0
34