چراغ گھر کے بجھا گیا ہوں
عدو کو بھی میں بتا گیا ہوں
جو نام مل کے لکھے تھے ہم نے
وہ جاتے جاتے مٹا گیا ہوں
وہ خط محبت میں جو لکھے تھے
میں راکھ ان کی بہا گیا ہوں
قفس میں جتنے بھی تھے پرندے
میں آج ان کو اڑا گیا ہوں
وہ اب بھی کیوں انتظار میں ہے
میں وہ جو آ کے چلا گیا ہوں

55