دیکھنے پر اسے ان آنکھوں سے اصرار نہ کر |
دل کی آنکھوں سے اسے دیکھ یوں انکار نہ کر |
آدمی ہوتا ہے انسان فرشتہ تو نہیں |
ہو خطا اس سے تو رسوا سرِ بازار نہ کر |
جو چلا آیا ترے پاس امیدیں لے کر |
دے بشارت اسے یوں خُو گرِ انذار نہ کر |
اے مرے دشمنِ جاں سن تو سہی بات مری |
سازشیں کر کے بہانہ پسِ دیوار نہ کر |
گر محبّت ہو کہیں ذکر بھی لب پر آئے |
کون کہتا ہے تجھے عشق کا اظہار نہ کر |
عاجزی عقل سکھاتی ہے خودی پاگل پن |
فیصلہ دل کے مقابل سرِ پندار نہ کر |
کامیابی ہی مقدّر میں لکھی ہے تیرے |
کی جو محنت اسے عُجلت میں تُو بیکار نہ کر |
طارق آ جائے گا تجھ کو بھی محبّت کا جواب |
بد گمانی سے یونہی خود کو گنہ گار نہ کر |
معلومات