اور اب انتظار کون کرے
وقت کا اعتبار کون کرے
درد حد سے گذر گیا اب کے
زخم دل کے شمار کون کرے
اب وہ کم کم ہی یاد آتا ہے
روح کو بے قرار کون کرے
در کو دیوار کر لیا ہم نے
صحن کو رہ گذار کون کرے
غم کے ساگر میں ڈوب کر شاہدؔ
آنکھ کو اشکبار کون کرے

0
37