تھی یہ زینب کی صدا رن میں کہ آؤ عباسؑ
شمر سے بالی سکینہؑ کو بچاؤ عباسؑ
دیکھو وہ ظلم کو اب اور بڑھاتا ہے لعیں
لاڈلی بیٹی کو درے بھی لگاتا ہے لعیں
چیخ کر روتی ہے وہ رن میں بچاؤ عباسؑ
آگ دامن میں لگی رخ پہ طمانچے مارے
دل پھٹا جاتا ہے بچی کے سنے جو نالے
آ کے سینے سے بھتیجی کو لگاؤ عباسؑ
چھینے گوہر تو تڑپنے لگی شہؑ کی دخترؑ
غش پہ غش کھاتی رہی گرتی رہی ہے مضطر
خاک پر ہے وہ پڑی اس کو اٹھاؤ عباسؑ
سسکیاں ایسی بندھی ہیں کہ سنبھلتی ہی نہیں
اس پہ مظلومہ کو تیغوں سے ڈراتے ہیں لعیں
ننھی بچی ہے مصیبت میں چھڑاؤ عباسؑ
اب نہ اکبرؑ ہیں نہ قاسم ہیں نہ کوئی ہے جواں
سننے بچی کی صدا کوئی نہیں آتا یہاں
آ کے کچھ درد بھتیجی کا بٹاؤ عباسؑ
پشت پر درے ہیں اور ننھے گلے میں ہے رسن
ہاتھوں کو رکھے ہوئے کانوں پہ وہ تشنہ دہن
پیار کر کے اُسے سینے سے لگاؤ عباسؑ
العطش کی جو صدائیں تھیں وہاں پر صائبؔ
سن کے یہ تڑپا وہاں لاشۂ سرور صائبؔ
خشک مشکیزہ ہے پانی تو پلاؤ عباسؑ۔

0
20