آہ شیخ الہنؒد تیری روح کو پہونچے قرار
آج تیرے جانشینوں میں نہیں وہ دل فگار
ڈھونڈتی ہے آنکھ میری سرفروشوں کو ترے
کون ہے جانباز تیرا ملک و ملت پر نثار
اولاً تو قعرِ دریا میں نہیں کوئی گہر
ہوں بھی گر تو کون ہے غواص اور گوہر نگار
رفتہ رفتہ شمع سے بیزار پروانے ہوئے
ہیں کہاں وہ سوزِ دل جو ہوں سراپا اضطرار
جو جلا کر خاک کر دے دشمنِ اسلام کو
آج سینے میں کہیں باقی نہیں ہے وہ شرار
کوئی گوہر تیرے دریائے عزائم میں نہیں
مدنؒی و سندھؒی کے جیسے حوصلوں کے کوہسار
مے کشوں کو ساقیا پھر سے کہیں سے ڈھونڈ لا
مے کدہ سنسان ہے کھوۓ گئے ہیں بادہ خوار
دین کی غیرت حمیت کے کہاں ہیں پاسباں
ان کی جرأت کے نمونے جانفشاں وہ شہسوار
تھک گیا میں چور ہوں زخموں سے میں رنجور ہوں
آج پھر سے ہے مرا دل اس قدر کیوں بیقرار
پاسبانِ عظمتِ اسلام یہ دار العلومؔ
ڈھونڈتا ہے پھر انہیں کو ایشیا کا شاہکار
عزمِ شیخ الہنؒد سے ہستی مری معمور ہو
کر رہا فریاد یارب! تجھ سے شاہؔی خاکسار

1
111
شکراً شکراً